تاریخ اپنے آپ کو دھاتی ہے اور آج تاریخ نے پھر اپنے آپ کو دہرایا۔







آیا صوفیہ کو یونانی عیسائیوں نے 537 عیسوی میں چرچ کیلئے بنایا تھا یہ اس وقت کے لحاظ سے سب سے کھلی بند عمارت تھی، 1453 تک یہ مختلف عیسائی فرقوں کے نگرانی میں تھا، قسطنطینہ کے فتح کے بعد سلطان محمد فاتح نے عیسائیوں کو اس کی قیمت ادا کی اور مسجد میں تبدیل کیا اس کے بعد سلطان محمد نے 1611 میں اس کے قریب تاریخی نیلی مسجد بھی تعمیر کی، تقریباً 500 سال تک یہ عمارت مسجد تھی 1919ء میں سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ترکوں نے آزادی کیلئے کوشش شروع کی اور تین سال کے عرصے میں تباہ شدہ سلطنت عثمانیہ کے راکھ سے ترکی کا قیام عمل میں لایا تو بد قسمتی سے عیسائیوں کے تسلسل کی وجہ سے ترکی پر لبرل حکومت آگئی 1935 میں ترکی کے حکومت نے اس تاریخی مسجد کو میوزیم میں تبدیل کیا جس کے لئے ہر سال تقریبا 33 لاکھ لوگ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور یورپی ممالک سے سیر و تفریح کیلئے آتے تھے جن میں ذیادہ تعداد پہلی جنگ عظیم میں اس مقام پر ان ممالک کے لڑنے والے فوجیوں کی ہوتی تھی،
پچھلے سال نیوزی لینڈ کے مساجد میں حملہ کرنے والے دہشتگرد نے حملے سے پہلے ترکی کو بھی دھمکی دی تھی کہ اگر آیا صوفیہ کو عبادت کی جگہ بنانے کا سوچ بھی لیا گیا تو ہم تم لوگوں کو ترکی میں ہی مارے گے، صدر اردگان نے جمرات کو ایک ریلی سے خطاب میں اس دہشتگرد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان جیسے دہشتگردوں سے نمٹنا ہم کو آتا ہے اور کیوں نہ آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرکے عبادت کیلئے کھول دیا جائے چونکہ سلطان محمد فاتح نے اس کے عوض عیسائیوں کو پیسے دیئے تھے اس لئے آیا صوفیہ اب مسلمانوں کی عمارت ہے، صدر اردگان کا یہ اقدام ترکی کو اسلامی ریاست بنانے کا عزم جو اس نے اٹھایا ہے اس کی طرف ایک کوشش بھی ہوسکتی ہے، لیکن اس وقت ترکی کا یونان اور فرانس سے بھر روم میں شدید کشیدگی چل رہی ہے دیکھتے ہیں کہ اس اقدام پر ان کا کیا ردعمل آتا ہے۔