یہ 2018 کی ایک شام تھی جب میرے موبائل کی بَیل بَجی کال ریسیو کی....
ایک صاحب نے سلام دعا کے بعد پوچھا عبداللہ صاحب!





کیا آپ رشتے کرواتے ھیں؟
میں نے کہا جی الحمد اللہ..
تو اگلا سوال غیر متوقع تھا کہ سَر مَیں آپ سے ملنا چاھتا ھوں،
مَیں نے پوچھا کس سلسلے میں،
تو جواب ملا کہ بہن کے رشتے کے سلسلے میں مدد درکار ھے۔
تین سال ھو گئے ھیں، کوئی رشتہ نہیں مل رھا،
میں نے مکمل تفصیل مانگی تو اُنہوں نے مجھے تفصیل واٹس ایپ کر دی۔
اس کے ساتھ ھی ملاقات کرنے کی اِستدعا بھی کی.
مزید معلومات لینے سے پتہ چلا بھائی کریانہ کی دکان کرتے ھیں اور میرے علاقے کے نزدیک ھی تھے،
تو ملاقات کے لئے چلا گیا،
کافی اچھے شریف النّفس انسان تھے،
بہن کے متعلق پُوچھنے پر بتایا،
کہ چار سال پہلے اس بھائی کے بہنوئی ایک حادثے میں اللہ کو پیارے ھو چکے ھیں، تین بچّے ھیں اور سِتم یہ کہ ایک بچی معذور ھے...
مَیں نے ان سے کہا کہ پاکستان میں دوسرے کے بچے کوئی نہیں پالتا۔۔۔
یہ سُن کر اس کی آنکھوں میں آنسو آ رھے تھے اور کہنے لگے پروفیسر صاحب میری بیوی نے میری بہن اور اس کے بچوں کا جینا حرام کر رکھا ھے،
عورت ھی عورت کی دشمن ھے آپ کسی طریقے سے کسی بھی طرح رشتہ کروا دیں احسان مند ھونگا، ھاتھ جوڑتے ھوۓ کہا......
مَیں حالات کو مکمل سمجھ چکا تھا لیکن مسئلہ بچّوں کا تھا، پھر ایک معذور بچّی کا ساتھ،
بات کچھ سمجھ سے باھر تھی،
خیر کوشش اور تسلی دے کر واپس آیا.
کافی سارے لوگوں سے بات کی سب تیار، مگر بچّوں کا سنتے ھی سب انکار کر جاتے تھے تنگ آ کر پہلی بیوی کی موجودگی میں شادی کرنے والوں سے بات کی،
تو اندازہ ھوا کہ اُن کو صِرف جسم کی ضرورت تھی اور بات یہاں بچّوں کی بھی تھی،
جو بھی سنتا کہتا بچّے نہیں چاھئے بھائی مجھے،
سُنت پوری کرنی ھے بچے نہیں پالنے،
میں دوسرے کی اولاد کیوں پالوں۔۔۔
دوسرے کی اولاد کون پالتا ھے، دو ماہ اسی طرح گزر گئے میرا ایک دوست، جو ھول سیل کا کاروبار کرتا تھا،
کافی مالدار بھی تھا
*ماشاء اللہ ۔۔۔۔۔*
ایک دن اس کی دکان پر بیٹھے بیٹھے خیال آیا میں نے کہا رضوان بھائی، یار دوسری شادی کیوں نہیں کر لیتا اس نے غور سے مجھے دیکھا، میری طرف جھانکنے لگا، تو میں نے کہا کیا ھوا،
جواب ملا کہ عبداللہ بھائی دیکھ رھا ھوں آپ نشہ تو نہیں کرنے لگ گئے، کیوں مجھے مروانا چاھتے ھو، میں نے کہا رضوان یہ سنت ھے،
آپ ماشاءاللہ سے اچھا کماتے ھیں،
اللہ نے آپ کو بہت ساری نعمتوں سے نوازا ھے.....
آپ کو ضرور شادی کرنا چاھئے اور کسی کا سہارا بننا چاھئے، تو اس کے انکار سے بھی مایوسی ملی،
خیر چند دن بعد رضوان سے دوبارہ ملاقات ھوئی تو کافی مایوس لگ رھے تھے،
مَیں نے پوچھا کیا بات ھے،
کوئی پریشانی دیکھائی دے رھی کہنے لگے دکان میں چوری ھو گئی.
حالات خراب ھو گئے ھیں،
میری بیوی بھی جھگڑا کر کے میکے جا بیٹھی ھے اور مسلسل طلاق کا مطالبہ کر رھی ھے اولاد نہیں تھی، میں نے افسوس کیا اور تسلی دینے کے ساتھ ھی کہہ دیا کہ رضوان اسی لئے آپ سےکہا تھا کہ دوسری شادی کر لیں،
آج دوسری بیوی ھوتی تو آپ کو پہلی بھی نہ چھوڑ کر جاتی،
اگر نہیں یقین تو دوسری شادی کر کے یتیم بچوں کے سر پر ھاتھ رکھیں، دیکھیں اللہ کی قدرت،
پہلی بیوی بھی واپس آۓ گی اور خوشحالی بھی،
میری طرف دیکھنے کے بعد رضوان بھائی نے کچھ سوچا اور پوچھا کتنے بچے ھیں ان کے،
مَیں نے کہا دو،
ایک بیٹا ایک بیٹی،
معذور بچی کا ﺫکر مَیں بھول چکا تھا، اس نے کہا ٹھیک ھے، آپ بات کریں جو میرے اللہ کو منظور،
میں نے لڑکی کے بھائی کو کال کی اور شام کو اس کی دکان پر ھی بلا لیا ملاقات کروائی،
گھر بار کاروبار دیکھنے کے بعد ھاں کر دیا،
یوں قصہ مختصر ان کا نکاح پروفیسرز ریسرچ اکیڈمی ٹیم کے بھائی پروفیسر شیخ الحدیث ابو تراب مکی حفظہ اللہ نے پڑھایا اور ریحانہ اپنے بچّے لے کر رضوان کی زندگی میں خوشگوار جھونکے کی طرح شامل ھو گئی،
رضوان بھائی نے ایک مکان جو کرایہ پر دیا ھوا تھا،

تب پہلی بیوی کو پتہ چلا تو وہ آندھی کی طرح گھر آئی،
گھر خالی دیکھ کر رضوان بھائی کو کال کر کے گھر بلایا،
اور میاں اور پہلی بیوی کی نوک جھونک ھوئی تو رضوان نے کہا تم نے نہیں رھنا تو بے شک مت رھو، طلاق لینی ھے، بے شک لے لیں
لیکن یہ نہ کہنا کہ ریحانہ کو چھوڑ دو، یہ ممکن نہیں،
پہلی بیوی نے جب دیکھا کہ تیر کمان سے نکل چکا ھے، تو وہ بھی خاموش ھو گئی،
اب رضوان بھائی کی زندگی میں بہاریں آ چکی تھیں، ریحانہ نے اس کی زندگی میں رنگ بھر دئیے تھے، بچّے شہر کے بہترین سکول میں داخل ھو گئے،
لیکن رضوان بھائی ریحانہ کی آنکھوں میں اَب بھی اُداسی دیکھتے اور شک کر چُکے،
کہ کوئی بات ضرور ھے،
ایک دن اس نے مجھ سے ﺫکر کیا، تو مَیں نے کہا اُداسی کیوں نہ ھو اس کی ایک بچی اس سے دور ھے، رضوان نے کہا بچّی، کون سی بچّی،
تو مَیں نے سب کچھ بتا دیا،
رضوان نے سب سن کر مجھے ایک نظر دیکھا تو مَیں نے سَر جُھکا لیا ..
اسی دن شام کو رضوان بھائی، بیوی سے کہنے لگے تیار ھو جاؤ، بچوں کو بھی تیار کرو، آج ھم نے آپ کے بھائی کے ھاں جانا ھے ضروری کام ھے، بیوی کا دل دَھڑک اُٹھا،
پوچھا تو جواب ملا جتنا کہا ھے، اتنا کرو،
کچھ دیر کے بعد ھی وہ لوگ بھائی کے گھر تھے، وھاں رضوان نے ریحانہ کو کہا کہ معذور بیٹی کہاں ھے،
اتنا سننا تھا کہ اسے لگا شاید کچھ غلط ھونے جا رھا ھے،
وہ دوسرے کمرے میں ھے رضوان نے دوسرے کمرے میں جا کر دیکھا تو غلاظت سے لَت پَت بچّی انتہائی کمزوری کی حالت میں پڑی تھی، رضوان بھائی اِشارہ کرتے ھوئے کہنے لگے ریحانہ بچی کے کپڑے بدلو یہ ھمارے ساتھ جاۓ گی۔۔۔
ریحانہ نے یہ سنا تو رضوان کے قدموں میں گِر گئی، بھائی نے رضوان کو گلے لگا لیا،
یوں وہ بچی رضوان اپنے گھر لے آیا،
اب وہ بچّی اور دوسرے دونوں بچّے رضوان، ریحانہ اور اس کی پہلی بیوی کی جان ھیں،
رضوان دن دُگنی رات چُگنی ترقّی کر رھا ھے،
ایک دن رضوان اور اس کی بیگم نے میری دعوت کی تو ریحانہ بھابی نے ھاتھ جوڑ کر کہا سر عبداللہ صاحب کبھی زندگی میں رشتے کروانے کا کام مَت چھوڑنا میری رضوان سے شادی نہ ھوتی،
تو میں آج بچوں کو قتل کر کے خُودکُشی کر چکی ھوتی، لوگوں کو بتاؤ عبداللہ بھائی،
دوسری شادی وہ نعمت ھے جو شرطیہ خوشیاں دیتی ھے،
خوشحالی لاتی ھے،
میری جیسی لاکھوں ھیں جو دُکھوں بھری زندگی گزار رھی ھیں،
اُن کو بھی خوشیاں دینی ھیں،
کاش کہ یہ نعمت معاشرے میں عام ھو جاۓ ..
یہ واقعہ فرضی نہیں حقیقی ھے،

دوسری شادی واقعی ایک نعمت ھے اور ایسی عورت سے دوسری شادی جس کے بچے ھوں، زندگی میں حقیقی خوشیاں بھر دیتی ھے،
مگر کیا کِیا جاۓ ایسے لوگوں کا، جو دوسری شادی کرنا چاھتے ھیں،
مگر بچے نہیں پالنا چاھتے،
جو دوسری شادی کے مزے تو لینا چاھتے ھیں مگر کسی کے سر دستِ شفقت نہیں رکھنا چاھتے،
کیا یہ ھے سُنت؟
کہاں لے کے جاۓ وہ عورت ان بچوں کو قتل کر دے، یا کسی دریا میں پھینک دے،
کیا کرے، زندگی موت کا کس کو علم،
کب کس کو موت اپنے شکنجے میں لے لے،
علم ھے نہیں نہ تو تمھارے بعد تمھارے بچوں کے ساتھ ایسا ھو،
پھر کیا کرو گے،
دیر مت کرو،

دوسری شادی کرنا چاھتے ھو،
تو بچوں والی سے کرو، پہلی بیوی کو بھی کہنے کے قابل ھو گے کہ سہارا دینے کی خاطر شادی کی ھے،
بے سہارا بچوں کو باپ کا سہارا دو،
یہ مت کہو کسی کے بچّے نہیں پال سکتا،
کیا تم پالتے ھو بچّوں کو؟
ارے پالنے والی ﺫات تو اللہ کی ھے، اللہ سے ﮈرو،
ﮈرو اس وقت سے جب اللہ تمھیں خود دکھاۓ کہ دیکھو کون پالتا ھے ..
تُم یا مَیں؟
کم از کم خواتین کو اس قسم کی کسی مجبور کو سہارا دینے والی دوسری شادی کو تو سپورٹ کرنا چاہئیے،